دورِ نبوی میں مساجد کا کردار نہ صرف عبادت بلکہ سیاسی، سماجی اور روحانی معاملات کا مرکز بھی تھا۔ آج کی مساجد میں اس اہمیت کا فقدان کیوں ہے؟

مساجد دورِ نبوی میں اور اب

مسجد صِرف پیشانی کو جھکانے کے لیے نہیں بنائی گئی بلکہ دینِ اسلام کے روزِ اول سے جب بھی مسجد کی تعمیر کی گئی،چاہے وہ مسجد قبا ہو،مسجد حرام ہو یامسجد نبوی، تمام تر سرگرمیوں کا محور و مرکز ہوا کرتی تھی۔ مثلا سیاسی فیصلے،جرگےاور قوموں کے باہمی اختلاف و فساد کا حل و صلح جیسے اہم امور مسجد میں بیٹھ کر سر انجام پاتے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسلام کے مقابل قوتوں سے جنگ کرنے کی حکمت عملی کی ترتیب اور مشاورت کا عمل بھی مساجد ہی میں ہوا کرتا تھا۔

دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے بعد فتح کی صورت میں مالِ غنیمت کی تقسیم کا عمل بھی مساجد ہی میں کیا جاتا تھا اور اسی طرح خارجی امور کی پالیسی بھی مسجد نبوی میں ترتیب دی جاتی تھی۔ نیزعرب قبائل کے سرداران اور بیرونی ممالک کے وفود،سفراء کی جائے ملاقات بھی مساجد ہی تھیں۔
دوسرے ممالک کے بادشاہوں کے نام خطوط اور ان کے سفیر بھی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد نبوی میں آکر ملتے تھے۔یعنی دینِ اسلام کا مرکزاور  اسلام سے منسلک تمام تر سرگرمیوں کی جا مسجد ہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس دور میں مساجد آباد تھیں اور وہاں آمد و رفت لگی رہتی تھی۔ حقیقی معنوں میں اسلام کے مراکز کا عملی نمونہ مساجد نظر آتی تھیں اور دینِ اسلام کی اصل روح اور روحانیت کا مرکز مساجد ہوا کرتی تھیں۔

دیکھئے: پاکستان میں عورت پر تشدد: مسائل، اسباب اور ممکنہ حل

دورِ نبوی اور عصرِ حاضر کا تقابلی مطالعہ

اس دور اور عصرِ حاضر کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو سوال پیدا ہوتا پے کہ آخر آج کیا وجہ ہے کہ مسجد کو وہ مرکزیت و اہمیت حاصل نہیں رہی، اس پر ستم ظریفی یہ کہ روحانی اعمال سے بھی خالی ہوتی جا رہی ہے۔
دراصل اس دور میں مساجد اسلام کا مرکز اور مسلمانوں کے ایمان کو تر و تازہ رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ باہمی اتحاد، اور  آپس میں شیر و شکر رہنا تھا۔
یعنی مسجد کا تعلق خالصتاً و جامعتاً اسلام اور مسلمانوں سے تھا اور وہاں ہمیشہ مسلمانوں کی جامعیت، اتحاد اور یگانگت کی بات ہوتی تھی لیکن جب سے فروعی اختلافات کو وجہِ ضد و عِناد بنایا گیا تب سے مساجد کی اصل روح کم ہوتی گئی۔
اسی طرح نصاب اور طرزِ تدریس کا کردار بھی بہت اہم ہے کیونکہ ابتداءًدینی و عصری علوم ایک ہی چھت تلے سیکھے سیکھائے جاتے تھے اور دین و دنیا کے ہر قسم  کے  منصب پر فائز  لوگوں میں کسی قسم کی تفریق اور کوئی خاص فرق نہیں تھا، نہ مزاج میں، نہ ہی انداز میں۔ پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور باہم اختلافات جنم لینے لگے اور دونوں قسم کے فنون کو الگ الگ طرح سے پرکھا جانے لگا تو ایک وقت ایسا آیا کہ مساجد اور مدارس میں صرف دینی علوم پڑھائے جانے لگے اور عصری علوم کے حامل افراد محض عبادت کے لیے مساجد کا رخ کرنے لگے۔

آج کی مساجد میں فرق

دورِنبوی اور آج کی مساجد میں ایک اور اہم فرق  اس دور میں فرقہ واریت سے پاک ہونا ہے۔تب کوئی دیوبندی، اہل حدیث یا بریلوی کا نام و نشان تک نہ تھا، بلکہ تمام لوگ اسلام اور ملت اسلامیہ کے لیے سوچتے اور جدو جہد کرتے تھے۔ آج دیکھا جا سکتا ہے کہ ہر کوئی اپنے مسلک کی ہی نشر و اشاعت میں، نیز  دوسرے مسلک کو نیچا دکھانے میں مصروفِ عمل ہے۔

ایک اہم وجہ مسجد میں بچوں کے ساتھ سختی سے پیش آنا ہے، جیسے ایک مشہور ترک کہاوت ہے کہ“اگر دوران نماز بچوں کے شور کی آواز نہ آئے تو سمجھ لینا کل کو تمہاری مساجد ویران ہیں۔”ہمارے لیےاس میں نصیحت و عبرت ہے۔حالانکہ سوچا جائے تو آج بچے مسجد کو آئیں گے، شور کریں گے کل شور کرتے کرتے نماز پڑھیں گے اور آہستہ آہستہ نماز کے عادی بن جائیں گے۔ ان بچوں کے لیے مسجد میں الگ سے  یا دورانِ نماز پچھلی صفوں میں جگہ مختص کی جا سکتی ہے۔ انہیں پیار سے سمجھایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ امت کا مستقبل انہی سے وابستہ ہے۔

تمام آراء مصنف کی ذاتی رائے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ یہ ساؤتھ ایشیا ٹائمز کی ادارتی پالیسی کی عکاسی کریں۔

Muneeba Rasikh is a social scientist, researcher, and writer with an MPhil in Islamic Studies. Her research focuses on Islamic Criminal Law, seeking to contribute to the ongoing discourse and promote a deeper understanding of its applications in modern society.

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *