اقبال شناسی یا اقبال دشمنی؟

اقبال شناسی یا اقبال دشمنی؟ کیا ہم نے اقبال کو سمجھا ہے یا اس کی فکر کو جان بوجھ کر مسخ کیا جا رہا ہے؟ ایک فکر انگیز جائزہ [Image via SAT Creatives]

“اگر میں اس وقت تک زندہ رہا کہ میں ایک مسلم ریاست کے قیام کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں، اور پھر اس وقت مجھے یہ موقع دیا جائے کہ میں اقبال کے کام کو سنبھالوں یا اس ریاست کے امور کو تو میں اقبال کو ترجیح دوں گا” – قائد اعظم محمد علی جناح۔ (سول ملٹری گیزٹ، مارچ 26, 1940)

اقبال پر لکھنے کی ہمت کم ہی ہوتی ہے۔ جب دنیا کے اکابرین فلسفہ و دانش اس نادر و نایاب کے باغ فہم و فراست کے خوشہ چین ہوں تو ہم تو کسی گنتی میں بھی شمار نہ ہوں۔ 

البتہ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ پچھلی دو دہائیوں سے بالخصوص اقبال کو دشنام طرازی اور تضحیک کا نشانہ بنانے والوں نے شاید اپنے مذہب سیکولرازم کا جزو لاینفک بنا لیا ہے کہ کسی بھی طرح یہ ثابت کیا جائے کہ یا تو اقبال ایک انتہائی عامی شاعر تھے، یا وہ دوسرں کے افکار کو چراتے تھے یا پھر وہ ناقابل فہم ہیں۔ 

دیکھئے: تحریفِ قرآن: مبارک ثانی مقدمہ اور آئندہ کا لائحہٴ عمل

اقبال شناس اور انتہائی ہر دلعزیز خرم الہی صاحب اور ڈاکٹر ادریس کے ساتھ ایک نشست میں یہ زاویہ بھی سننے کا موقع ملا کہ اقبال کو جاننے والے بھی کئی طرح کے ہیں۔ جن میں سے ایک وہ ہیں جو اقبال کو جاننے کی جستجو ہی اس لئیے کرتے ہیں کہ اس کی فکر کی لو کو معدوم کیا جاسکے۔ میرا مگر اس زاوئیے سے صرف ایک اختلاف ہے۔  وہ یہ کہ یہ بات ان لوگوں پر تو منطبق ہو سکتی ہے جو کسی زمانہ میں واقعی ہی تحقیق اور جستجو کے مراحل کو بہر حال اپنی زندگی کا حصہ بناتے تھے۔ اب اقبال کے نام پر گھٹیا شاعری کے ٹکڑے بانٹنے والوں میں اور مخالفین کی صفوں میں عصبیت و جہالت کے دبیز پردوں تلے اندھیرے میں اوہام تراشتے اذہان و قلوب میں کوئی فرق نہیں رہا۔ ایسے ایسے نادر و نایاب شگوفے سننے، دیکھنے اور پڑھنے کو ملتے ہیں کہ غصہ سے زیادہ افسوس اور اس بھی زیادہ ہنسی کو بمشکل روک پاتے ہیں۔ 

مگر ان کی بات چھوڑئیے۔ وہ جو اقبال کے روحانی فرزند ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جنھیں شاید یہ زعم ہے کہ وہ اقبال کے شاہین و خودی کے اسرار و رموز کو بخوبی جانتے اور مانتے ہیں۔ انھوں نے بھی اقبال کے ساتھ وہی ظلم کیا جو تباہی کے راستے پر چل پڑنے والی ان تمام اقوام نے کیا جنھوں نے اپنے زمانے کے نقیب کو صرف داستان گوئی، قوالی اور گنے چنے چند مخطوطات، اشعار یا اقوال تک محدود کر دیا تھا۔ 

میری نسل کے لوگ اردو کو ایک بوجھ اور فارسی کو ایک متروک زبان سمجھتے ہیں۔ عربی تو خیر نہ سمجھنا چاہیں گے کہ کہیں سوال ہی نہ ہو جائے کہ زبان جانتے ہوئے بھی وہ کتب نہ پڑھیں جو پہچان کے عمل کو جاری کر دیتیں۔

اور آج کی نسل کے لوگ تو خیر ۔۔ ان کی زبان بینی کا عالم ایسا ہے کہ رومن اردو میں بھی شاعری کو پڑھ نہ پائیں۔ اور بے حسی ایسی کہ یہ تک نہ پتہ ہو کہ وہ صرف ایک شاعر نہیں۔ ایک زمانہ تھا۔ جس سے فلسفہ، افکار، نظریات اور تصور زمان و مکاں کو سمجھنے کے لئیے ایران و افغانستان سے لے کر ترک و جرمن تک، صحرائے عرب سے لے کر وسطی ایشیا کے میدانوں تک ایک مہم اور مسلسل مہم ہے۔

 اور ہم کوہ نور کو روتے لوگ، ایک بحر بیکراں کے وارث ہوتے ہوئے بھی خالی ہاتھ ہیں۔ 

اقبال پر تبراء مستقبل میں بھی ہوگا۔ یہ ماضی کی روایت بھی رہی ہے۔اس پر کیا نوحہ گری کرنا۔ 

 مگر کوئی آہ سحر گاہی میں ڈوبے ان تقدیس خوان مشرق کے لئیے ہی بانگ درا کا کوئی ورق پلٹ دے۔ شاید کے ان کے مردہ روحوں میں وہ حرکت ہو،  جن کے ہاں فی الوقت دل یزداں میں کھٹکنے سے ‘اللہ ہو’ بہتر ہے۔

تمام آراء مصنف کی ذاتی رائے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ یہ ساؤتھ ایشیا ٹائمز کی ادارتی پالیسی کی عکاسی کریں۔

Salman Javed

Salman Javed

The author is Director General at South Asia Times.

Recent

When Insurgents Rule: The Taliban’s Crisis of Governance

When Insurgents Rule: The Taliban’s Crisis of Governance

The Taliban’s confrontation with Pakistan reveals a deeper failure at the heart of their rule: an insurgent movement incapable of governing the state it conquered. Bound by rigid ideology and fractured by internal rivalries, the Taliban have turned their military victory into a political and economic collapse, exposing the limits of ruling through insurgent logic.

Read More »
The Great Unknotting: America’s Tech Break with China, and the Return of the American System

The Great Unknotting: America’s Tech Break with China, and the Return of the American System

As the U.S. unwinds decades of technological interdependence with China, a new industrial and strategic order is emerging. Through selective decoupling, focused on chips, AI, and critical supply chains, Washington aims to restore domestic manufacturing, secure data sovereignty, and revive the Hamiltonian vision of national self-reliance. This is not isolationism but a recalibration of globalization on America’s terms.

Read More »
Inside the Istanbul Talks: How Taliban Factionalism Killed a Peace Deal

Inside the Istanbul Talks: How Taliban Factionalism Killed a Peace Deal

The collapse of the Turkiye-hosted talks to address the TTP threat was not a diplomatic failure but a calculated act of sabotage from within the Taliban regime. Deep factional divides—between Kandahar, Kabul, and Khost blocs—turned mediation into chaos, as Kabul’s power players sought to use the TTP issue as leverage for U.S. re-engagement and financial relief. The episode exposed a regime too fractured and self-interested to act against terrorism or uphold sovereignty.

Read More »
The Indo-Afghan Arc: Rewriting Pakistan’s Strategic Geography

The Indo-Afghan Arc: Rewriting Pakistan’s Strategic Geography

The deepening India-Afghanistan engagement marks a new strategic era in South Asia. Beneath the façade of humanitarian cooperation lies a calculated effort to constrict Pakistan’s strategic space, from intelligence leverage and soft power projection to potential encirclement on both eastern and western fronts. Drawing from the insights of Iqbal and Khushhal Khan Khattak, this analysis argues that Pakistan must reclaim its strategic selfhood, strengthen regional diplomacy, and transform its western border from a vulnerability into a vision of regional connectivity and stability.

Read More »
Pakistan’s rejection of a Taliban proposal to include the TTP in Turkey talks reaffirmed its sovereignty and refusal to legitimize terrorism.

Legitimacy, Agency, and the Illusion of Mediation

The recent talks in Turkey, attended by Afghan representatives, exposed the delicate politics of legitimacy and agency in Pakistan-Afghanistan relations. By rejecting the Taliban’s proposal to include the TTP, Pakistan safeguarded its sovereignty and avoided legitimizing a militant group as a political actor, preserving its authority and strategic narrative.

Read More »