پاکستانی معاشرہ ان بدقمسمت معاشروں میں سے ہے جہاں عورت آج بھی مختلف قسم کے تشدد کا شکار ہے جس کی وجہ سے یہاں۔ عورت خود کو غیر محفوظ بھی سمجھتی ہے اور اپنے اندر اعتماد کی کمی بھی محسوس کرتی ہے ۔کیونکہ اس خطے کو مردوں کا معاشرہ کہا جاتا ہے ایسے میں یہاں بے شمار عورتیں ہیں جو تشدد کی کسی نہ کسی قسم کا شکار ہیں ۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ تشدد کی شکار عورت کو نہ ہی یہ معاشرہ کسی قسم کی امداد فراہم کرتا ہے نہ ہی قانون اس کی مدد کرتا ہے حتی کے طویل عرصے تک عورت خود پہ ہونے والے ظلم و زیادتی کو ظلم سمجھتی تک نہ تھی اسے لگتا تھا کہ یہ ہی اس کی قسمت ہے اور کیونکہ ایسا ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے اس لیے مجھے بھی اسی رویے کے ساتھ جینا ہےاس کو یہ سکھایا گیا کہ مرد حکمرانی کرنے کے لیے جبکہ عورت محکوم رہنے کے لیے بنی ہے ۔نتیجتا وہ اپنے حالات سے سمجھوتہ کرکے خود اپنی ذات کو مٹا ڈالتی ہے۔
ایک دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت ہی عورت کی دشمن ہے جہاں مرد عورت کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام نظر آتا ہے وہیں عورت اپنی ہی جنس کے ساتھ مقابلہ بازی ،حسد اور اختیارات کے حصول کے لیے اس کا استحصال کرتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں خواتین کو مختلف قسم کے تشدد اور ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
دیکھئے: ذیابیطیس: ایک خاموش قاتل
ذہنی تشدد
تشدد صرف جسمانی نہیں ہوتا بلکہ ذہنی تشدد اور ٹارچر بھی اس کی ایک قسم ہے جس کا شکار ہر دوسری عورت ہے یہاں کیونکہ مشترکہ خاندانی نظام ہے اس لیے اس نظام میں پستی ہر عورت ہر دوسری عورت کے ساتھ وہ ہی کرنا چاہتی ہے جو ماضی میں اس کے ساتھ ہوا۔شادی کے شروع کے دنوں سے ذہنی تشدد کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے پھر وہ پہلے بچے کی پیدائش ،کچن اور گھر کے دوسرے امور میں آپس کی چپقلش تک جا پہنچتا ہے ۔۔۔ایک لڑکی جس نے بہت سے خوبصورت خواب دیکھ کے اپنا گھر بسایا ہوتا ہے وہ سب کو خوش رکھنے کے چکر میں نہ ہی اچھی بیوی بن پاتی ہے نہ اچھی ماں اس سے صرف اچھی بہو بننے کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے جس کی وجہ سے پھر وہ اپنی بنیادی ذمہ داریاں تک بھول جاتی ہے اور مستقبل میں صرف پچھتاوے اس کے منتظر ہوتے ہیں۔۔
اس سب کا نتیجہ مختلف قسم کی ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کی صورت میں نکلتا ہے جن کا اگر علاج نہ کروایا جائے تو نقصان ناقابل تلافی ہوتا ہے ۔
جسمانی تشدد
یہ تشدد کی بدترین قسم ہے جس کا شکار ہر وہ خاتون ہوتی ہیں جس کا شوہر خود کو بحییث مرد کے ایک حاکم تصور کرتا ہے اور بیوی کو غلام وہ یہ سمجھتا ہے کہ بیوی کو مارنا اس کا فرض ہے بدقسمتی سے اس قبیح فعل میں اکثر اسں کی ماں بہنیں بھی اس کے ساتھ شامل ہوتی ہیں ۔۔یہ ڈومیسٹک وائلینس کی ایک قسم پے جس میں پھر عورت کو گالیاں دینا ،اسے طلاق کی دھمکی دینا ،خوراک کی کمی کا شکار کرنا ،جیب خرچ وغیرہ نہ دینا۔
پاکستانی خواتین پر تشدد اور اس کا حل
پاکستان میں ہر دس منٹ میں ایک عورت ڈومیسٹک وائیلنس کا شکار ہوکے موت کے منہ میں چلی جاتی ہے گو کہ اس سے بچاؤ کے لیے ویمن پروٹیکشں بل بھی موجود ہے لیکن قانون پر عملدرامد کیے بغیر اور معاشرہ خصوصا مرد کی تربیت کیے بغیر ہم خواتین پر ہونے والے تشڈد کو روک نہیں سکتے اس کے علاوہ خواتینں کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا کرنا تاکہ وہ خودمختار زندگی گزار سکیں ۔۔
تعلیم،صحت ،معاشی استحکام ،حقوق و فرائض کی مکمل آگہی اور قانون کی صحیح معانوں میں عملداری ہوگی تب ہی ہم معاشرے کو ایک بہترین ماں ،بیوی اور بیٹی دے سکیں گے۔
تمام آراء مصنف کی ذاتی رائے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ یہ ساؤتھ ایشیا ٹائمز کی ادارتی پالیسی کی عکاسی کریں۔
Muniba Rashid holds a degree in Microbiology from Karachi University and is a regular contributor for different news and media outlets.
Add a Comment