معاہدہ ابراہیمی

ابراہیمی معاہدہ: مشرق وسطیٰ کا نیا منظرنامہ

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں سعودی عرب، قطر، اور متحدہ عرب امارات کا اہم دورہ کیا، جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ اس دورے کے دوران نہ صرف بڑے اسلحہ کے معاہدے طے پائے بلکہ مختلف معاشی مفاہمتوں پر بھی دستخط ہوئے جن کی مجموعی مالیت $600 بلین تک بتائی جاتی ہے۔ صرف اسلحہ کی فروخت کے معاہدے $142 بلین تک پہنچ گئے، جبکہ قطر نے 200 بوئنگ طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا۔ ٹرمپ کے بقول، یہ سب کچھ ان کے “سب سے پہلے امریکہ” کے وژن کی عملی تعبیر ہے۔ ٹرمپ نے بڑی مہارت سے امریکی ہتھیاروں کی قیمت کا بوجھ عرب ریاستوں پر منتقل کر دیا ہے۔ ان کی قیادت میں امریکہ محض ایک عالمی طاقت نہیں بلکہ ایک عالمی تاجر کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ ان کا یہ انداز امریکی معیشت کو سہارا دینے میں مؤثر رہا ہے، لیکن اس کے بین الاقوامی مضمرات خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں بہت دور رس ثابت ہو سکتے ہیں۔

سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات: ایک تاریخی جائزہ

تاریخی طور پر سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات دوسری جنگ عظیم کے بعد صدر روزویلٹ اور شاہ عبدالعزیز کے درمیان ملاقات سے جڑتے ہیں۔ ان تعلقات نے وقتاً فوقتاً سرد و گرم مراحل دیکھے ہیں، جیسے 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ، 9/11 کے بعد کی کشیدگی، یا پھر جمال خاشقجی کے قتل کے بعد پیدا ہونے والا بحران۔ لیکن مجموعی طور پر سعودی عرب امریکی کیمپ میں ہی کھڑا رہا ہے۔ آج سعودی معیشت میں امریکی کمپنیوں کی بھرمار ہے اور بازار امریکی مصنوعات سے بھرے ہوئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ معاہدات سے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک نیا باب کھل رہا ہے۔ انہوں نے نہ صرف قطر و سعودی عرب کے ساتھ دفاعی و معاشی مفاہمت کی بلکہ شام کے ایک متنازع رہنما احمد الشرح کے ساتھ ملاقات کرکے واضح پیغام دیا کہ امریکہ اب شام میں بشارالاسد کا متبادل سامنے لا رہا ہے۔ یہ وہی احمد الشرح ہیں جنہیں ماضی میں دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا، لیکن آج وہ امریکہ کے نئے اتحادی کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔

معاہدہ ابراہیم: مشرق وسطیٰ کی سیاست پر گہرے اثرات

اس سارے منظرنامے میں “معاہدہ ابراہیم” ایک کلیدی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ معاہدہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کی راہ ہموار کرنے کا ذریعہ ہے، مگر اس کے پس پردہ مقاصد زیادہ گہرے اور تشویشناک ہیں۔ اس کا ایک بڑا مقصد خطے میں اسرائیل کے اثر و رسوخ کو بڑھانا اور عرب ریاستوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنا ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں فلسطینی عوام کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ غزہ کی تباہی کے بعد اسے دوبارہ تعمیر کرنے کی بات ہو رہی ہے لیکن اس تعمیر کے پس منظر میں اسرائیلی تسلط کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ جو قوم اپنے شہداء کے لاشے دفن کر چکی ہو، وہ اسرائیلی اثر میں کبھی زندہ دل قوم نہیں بن سکتی۔ ایسے میں اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشمکش کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا۔

پاکستان اور عالمی منظرنامے میں بدلتے تعلقات

“معاہدہ ابراہیم” کے اثرات صرف فلسطین تک محدود نہیں، بلکہ ایران کو بھی اس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی کوشش ہوگی کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرے، بصورتِ دیگر اسے شدید عالمی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ سب کچھ پاکستان کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ عالمی منظرنامے میں تیزی سے بدلتی ہوئی سفارتی حقیقتیں ہمیں اس بات پر مجبور کر رہی ہیں کہ ہم بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عالمی دباؤ کو محسوس کریں۔ امریکہ پہلے ہی واضح اشارے دے چکا ہے کہ وہ سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کو اپنی “عزت افزائی” سمجھے گا۔ ایسے میں پاکستان پر دباؤ میں اضافہ بعید از قیاس نہیں۔ یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری ریاستی و قومی سلامتی کے ادارے اس تمام تر صورتحال کا باریک بینی سے تجزیہ کریں اور ایک مؤثر و متفقہ قومی بیانیہ سامنے لائیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو عالمی دباؤ کی شدت میں ہماری پالیسی غیر واضح رہنے کا خدشہ ہے۔ “ابراہیمی معاہدہ” بظاہر تو مذہبی ہم آہنگی اور مشرق وسطیٰ میں قیامِ امن کی علامت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن درحقیقت یہ مذہب کو سماجی و تہذیبی کردار سے نکال کر محض عقائد تک محدود رکھنے کی عالمی کوششوں کا حصہ ہے۔ ابوظہبی میں “ابراہیم خاندان ہاؤس” جیسے منصوبے اسی عالمی ایجنڈے کی کڑی ہیں۔ ہمیں بطور مسلمان قوم اس نکتے پر غور کرنا ہوگا کہ کیا ہم بھی اپنے مذہب کو محض عبادات و اخلاقیات تک محدود رکھنے کو تیار ہیں؟ یا ہم اب بھی اسے زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی دینے والا مکمل ضابطہ حیات سمجھتے ہیں؟ عالمی سیاست میں آنے والی یہ نئی تبدیلیاں ایک نئے دور کے آغاز کا اعلان کر رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم بطور پاکستانی قوم اور اسلامی دنیا ان چیلنجز کا سامنا کیسے کریں گے؟ اور کیا ہم تاریخ کا درست رخ اختیار کریں گے؟ وقت کی گھڑی ہمیں جھنجھوڑ رہی ہے، فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔

Muhammad Azam is a Lecturer in the Department of Islamic Studies at Green International University, Lahore, and a PhD Scholar in Islamic Studies at the University of Lahore. He also serves as an Editorial Board Member of Kashf Journal of Multidisciplinary Research, an HEC-recognized journal. His research interests include Islamic jurisprudence, interfaith ethics, and contemporary religious thought.

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *