موسمیاتی تبدیلیاں اور پاکستان

کیا موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کے لیے سنگین خطرہ ہیں؟ اور کیا شجرکاری اور صاف توانائی اس کا حل ہیں؟ جانیں تفصیل سے۔

دنیا تبدیلیوں  کے راستے پہ بہت تیزی سے گامزن ہے ۔تبدیلی کسے اچھی نہیں لگتی لیکن یہ ہی تبدیلی اگر تباہی  کی جانب سفر کرے ۔۔۔اعتدال کے راستے کو چھوڑ کے اپنی انتہاؤں کو چھونے لگے تو پھر ایسی تبدیلیاں سب کے لیے ہی خطرے کا باعث بن جاتی ہیں۔۔۔

ہم نے ترقی و خوشحالی کے نام پہ   کرہ ارض کے تمام خزانوں کو اس میں موجود نباتات کو ،معدنیات کو جنگلات کو آبی حیات کو سمندروں کو اور ان تمام مخلوقات کو جو  زمین  کے نیچے اور زمین کے اوپر سانس لیتی ہیں ان سب کے لیے جینا دشوار کردیا ہے اور اس سب کا نتیجہ  یہ نکلا ہے کہ قدرت ہم سے ناراض ہے فطرت نے ہم سے منہ موڑ لیا ہے اور آنے والی دنیا موسم کی شدتوں کا سامنا کرنے کو تیار کھڑی ہے۔۔۔۔

پاکستان کے لئے ایک سنگین چیلنج

دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیاں پوری شدت کے ساتھ ظاہر ہونا شروع ہوچکی ہیں۔۔۔معتدل مزاج شہروں کے درجہ حرارت بڑھ چکے ہیں ۔بارش برسانے والے سسٹم نے اپنا پیٹرن تبدیل کرلیا ہے  کہیں بے تحاشہ بارشیں ہورہی ہیں تو کہیں قحط کا سامنا یے۔۔۔

درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے گلیشئیرز پگھل رہے ہیں جو سیلاب کا باعث بن رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے موسمیاتی پروگرام نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے  سالانہ رپورٹ جاری کی ہے۔جس میں یہ ہولناک انکشاف کیا گیا ہے کہ اس صدی کے آخر تک ہماری زمین کے اوسط درجہ حرارت میں 3.1 ڈگری سنٹی گریڈ تک اضافہ ہو سکتا ہے ۔ 

اگر موسمیاتی تبدیلیاں اسی طرح کرہ ارض پہ اپنے پنجے گاڑتی رہیں تو وہ وقت دور نہیں جب ہمیں آکسیجن سیلنڈر کے ساتھ گھر سے باہر نکلنا پڑے گا اور آکسیجن خریدنی پڑے گی ۔۔۔۔ایک طرف جنگلات کاٹے جا رہے ہیں ،سبزہ اور ہریالی ختم ہورہی ہے دوسری جانب  فیکٹریوں اور گاڑیوں سے نکلنے والے زہریلے دھواں  کاربن کے اخراج کو اتنا بڑھا چکے ہیں کہ اب سانس لینا محال ہے ۔

موسمیاتی تبدیلیاں جہاں معیشیت کے لیے خطرناک ہیں وہیں اس کی وجہ سے زراعت بھی شدید  خطرے میں ہے۔ خدشہ ہے کہ اس صدی کے آخر تک انسان اپنی خوراک کی بنیادی  ضروریات کو پورا نہیں کرسکے گا۔

دیکھئے: اقبال شناسی یا اقبال دشمنی؟

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیاں اور ان کے اثرات

بدقسمتی سے پاکستان اس وقت شدید قسم کی موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے۔

گلوبل کلائمیٹ رسک  انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان مسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آنے والے ممالک میں پانچویں نمبر پہ ہے  ۔۔۔

پاکستان دنیا کے اس خطے میں موجود ہے جہاں اسے موسمی شدت کا سامنا رہتا ہے یہاں کبھی بارشوں اور سیلاب خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیںں تو کبھی قحط سالی کا سامنا کرنا پڑتا پے ۔۔

اس خطے کا درجہ حرارت مستقل بڑھ رہا ہے جبکہ نمی میں اضافہ کے باعث حبس کی کیفیت رہتی ہے۔

پاکستان کیونکہ ایک ترقی پذیر ملک ہے اور یہاں کرپشن ،بد انتظامی ،جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی جیسے نظام ہیں اس لیے اسے  مستقل قدرتی آفات کا سامنا رہتا ہے ایک طرف اربنائزیشن کے بڑھتے ہوئے رجحان نے شہری و دیہی آبادی کا فرق مٹا کے رکھ دیا ہے ۔دوسری جانب دیہاتوں میں  وسائل کی عدم دستیابی اور روزگار کے مواقع  نہ ہونے کے سبب نئ نسل شہروں کی جانب ہجرت کرنے کو ترجیح دے رہی ہے نتیجتا زرعی زمینوں پہ فصل اگانے کے بجائے اب وہاں نئ سوسائٹیز بن رہی ہیں اور زراعت کا پیشہ اختیار کرنے میں شرم محسوس کی جارہی ہے۔

اس سب کی وجہ سے ایک طرف شہر بڑھتی ہوئ آبادی  کے سبب جہاں ماحولیاتی آلودگی کا سامنا کررہے ہیں وہیں شہروں میں رہاہشی اسکیموں اور وسائل کی کمی کی وجہ سے مستقل درخت کاٹے جارہے ہیں ،گرین بیلٹس ختم کی جارہی ہیں ،اور گاڑیوں اور صنعتوں سے خارج ہونے والے دھویں کی کثرت کی وجہ سے  گرمی کی شدت میںں ہر سال اضافہ ہورہا یے اس کے علاوہ کنکریٹ سے بنی بلندو بالا عمارتیں بھی گرمی میں اضافہ کا باعث بن رہی ہیں ۔۔

موسمیاتی تبدیلیاں اور اس سے نمٹنے کے حل

پاکستان کو درپیش موسمی حالات اور ان  چیلنجز سے نکالنے کا حل کیا ہے ؟؟ 

اس پہ  اگر ہم نے آج بات نہ کی تو آنے والی نسلیں شاید جی نہ سکیں ۔۔

ضرورت ہے کہ ہم پھر سے فطرت کی جانب واپس لوٹ جائیں ۔۔

سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ ہر شخص جو اس زمین میں سانس لے رہا ہے اپنے حصے کی آکسیجن لینے کے لیے ایک درخت لگائے ۔۔۔

شجر کاری اور اربن فاریسٹ ہی وہ اقدامات ہیں جس کے بعد ہم موسم کی شدتوں کا مقابلہ کرسکیں گے ۔

اس کے بعد فیکٹریوں اور   گاڑیوں سے نکلنے والے زہریلے دھویں کو کنٹرول کرنا ۔۔

پبلک ٹرانسپورٹ کا جدید نظام متعارف کروانا ۔۔

شمسی توانائ کے ذریعے بجلی کا متبادل پیدا کرنا ۔۔۔

انسانی  فضلے اور دیگر گاربیج کو ٹھکانے  لگانے کے مناسب انتظام کرنا۔۔

بارش کا پانی محفوظ کرنے  اور ڈیم بنانے سے ہم سیلاب اور خشک سالی سے بچ سکتے ہیں ۔۔

کاشت کاری کے جدید نظام کو متعارف کرواکے ہم نوجوانوں کو پھر سے اس طرف لا سکتے ہیں ۔۔۔

یہ زمین سسک رہی ہے اس لیے کہ ہم نے اس پہ وہ تمام بوجھ لاد دئیے ہیں جسے اٹھانے کی یہ متحمل نہ تھی۔

اب وقت ہے کہ ہم اس  زمین کے بوجھ کچھ کم کریں اور اسے پھر سے رہنے کے قابل بنادیں ۔

تمام آراء مصنف کی ذاتی رائے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ یہ ساؤتھ ایشیا ٹائمز کی ادارتی پالیسی کی عکاسی کریں۔

Muniba Rashid

Muniba Rashid holds a degree in Microbiology from Karachi University and is a regular contributor for different news and media outlets.

Recent

Five years after the Doha Accord, the Taliban break commitments, harbor terrorists, exclude women and minorities, and defy international agreements.

Broken Promises, Renewed Threats: Time to Hold TTA Accountable

Five years after the Doha Accord, the Taliban have broken key commitments: 5,000 released prisoners returned to combat, 89% of government posts are held by Pashtuns, and women remain barred from education and work. Afghan soil hosts 6,000–6,500 TTP and Al-Qaeda fighters, with TTP chief Noor Wali Mehsud receiving $43,000/month. Pakistan has neutralized 267 Afghan terrorists in 2025, while 58 terrorist camps operate under Taliban knowledge. Despite the US aid, compliance is minimal. International recognition and support must now be tied to verifiable reforms to prevent further regional instability.

Read More »
The Istanbul dialogue between Pakistan and the Afghan Taliban collapsed over the TTP issue, exposing the limits of regional diplomacy and mediation.

The Istanbul Dialogue: How the Taliban’s Intransigence Doomed Diplomacy

The highly anticipated Istanbul dialogue, facilitated by Turkey and Qatar, has ended in deadlock. The Taliban’s refusal to act against the Tehrik-e-Taliban Pakistan (TTP) and their introduction of provocative counter-demands have effectively derailed the diplomatic process, underscoring the ideological rigidity driving Kabul’s foreign policy.

Read More »
Centralized Power and the Core–Periphery Divide in Afghanistan

Centralized Power and the Core–Periphery Divide in Afghanistan

The Islamic Emirate of Afghanistan’s return in 2021 brought rapid consolidation of power, but also the revival of a historical flaw. By concentrating authority in the hands of southern Pashtun elites, the Taliban have recreated the core–periphery divide that has destabilized every Afghan regime since the 19th century. This hyper-centralization, rooted in ethnic exclusivity and Kandahar dominance, risks a repeat of past collapses as non-Pashtun regions turn toward functional autonomy.

Read More »
Broken Promises: The Taliban’s Betrayal of Global Commitments

Broken Promises: The Taliban’s Betrayal of Global Commitments

Nearly three years after seizing power, the Taliban’s systematic violation of their international commitments under the 2020 Doha Accord has transformed Afghanistan into a sanctuary for terrorism, entrenched an autocratic regime, and institutionalized gender apartheid. Beyond moral failure, this deceit poses a grave threat to regional stability, international counterterrorism efforts, and the credibility of global diplomacy. Holding the regime accountable is now a strategic necessity, not a choice.

Read More »
Do You Remember 6/11/ 1947?: A Forgotten Jammu Genocide and the Continuing Erasure of Kashmiriyat

Do You Remember 6/11/ 1947?: A Forgotten Jammu Genocide and the Continuing Erasure of Kashmiriyat

On November 6, 1947, one of South Asia’s earliest genocides unfolded in Jammu, where hundreds of thousands of Muslims were massacred or forced to flee. Yet, unlike other global tragedies, this atrocity remains buried in silence. The Jammu Genocide not only reshaped the region’s demography but laid the foundation for India’s ongoing campaign of identity erasure in Kashmir. From demographic engineering to cultural censorship, the spirit of Kashmiriyat continues to face systematic annihilation.

Read More »